حرفِ آغاز

آزادیِ ملك پر ۶۸ سال بیت جانے كے بعد بھی ......

 

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

فصل گل آتی رہی جاتی رہی

آرزو دامن ہی پھیلاتی رہی

ہمارے ملک ہندوستان نے آزادی کے ۶۸ سال پورے کرلیے ہیں، قوموں اور ملکوں کے عروج وارتقاء میں یہ مدت اگرچہ کوئی فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتی ہے، پھر بھی یہ ایک ایسا لمبا وقفہ ہے جس میں بچے بوڑھے اور بوڑھے جہانِ دِگر میں پہنچ جاتے ہیں؛ اس لیے کسی ملک کی تعمیر وترقی اور پستی وگراوٹ کا جائزہ لیتے وقت اس زمانہ کو بہرحال ملحوظ رکھا جانا چاہیے؛ اس لیے ایک مبصر اس ۶۹ سالہ مدت کے گزرجانے کے بعد موجودہ ہندوستان پر نظر ڈالتا ہے، تو اسے اس اعتراف کے باوجود کہ اس مدت میں ہمارے ملک نے علم وسائنس، صنعت وحرفت، تجارت و زراعت وغیرہ میدانوں میں قابلِ ذکر پیش رفت اور ترقی کی ہے اور ان میدانوں میں بلاشبہ اسے اپنے پڑوسی ملکوں پر واضح برتری اور نمایاں فوقیت حاصل ہے، بایں ہمہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شاید یہ وہ صبح نہیں ہے، جس کا خواب ملک کے سپوتوں اور آزادی کے متوالوں نے دیکھا تھا، یہ وہ اجالا نہیں ہے، جس کے لیے پروانوں نے اپنی جانیں قربان کردی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیش رو، ملک وقوم کے بہی خواہوں نے جب ملک کو غیروں کے پنجہٴ استبداد سے آزاد کیاتھا تو اس وقت طے کیا تھا کہ ہم ملک کو اپنے حسین خوابوں کا دیس بنائیں گے اور ایسا صالح معاشرہ وجود میں لائیں گے، جس میں سبھی عوام کو مساویانہ حقوق اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے، جس میں تمام شہری قانون وانصاف کی نگاہ میں برابر ہوں گے، جس میں ہر شخص اور جماعت وطبقہ کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب وثقافت پر عمل پیرا ہونے اوراس کی تبلیغ واشاعت کی مکمل آزادی ہوگی، کسی کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز نہیں کیا جائے گا، ملک کا ہر شہری کھلی فضا میں سانس لے گا، جہالت وغربت اور محرومی وبیچارگی کی دلدل سے سب کو باہر نکالاجائے گا؛ لیکن آج کے ہندوستان میں فرقہ پرستی، تعصب اور من وتو کی تفریق زندگی کے ہر شعبہ میں عام ہے، معاشی ناہمواری کا یہ عالم ہے کہ ملک کی اسّی فیصد دولت ملک کے بیس فیصد سیاسی صنعتی اور تجارتی گھرانوں کے پاس سمٹ گئی ہے، بس بقیہ بیس فیصد اسّی فیصد آبادی کا حصہ ہے اور رنگا ارجن کمیٹی کی رپورٹ کو مانیں تو ملک کی تیس فیصد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پرمجبور ہے، انسانی ترقی اشاریہ (جو تعلیم، صحت، معیارِ زندگی اور جنسی مساوات کی بنیادوں پر تیار کیا جاتا ہے) کے اعتبار سے ہمارا ملک ایک سو ستاسی ممالک کی درجہ بندی میں ۱۳۵ ویں پائدان پر ہے، صحتِ عامّہ کا حال یہ ہے کہ ایک ہزار زندہ ولادت میں سے چالیس سے پینتالیس بچے ایک سال کی عمر سے پہلے ہی صحت کے مسائل کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا کی (۲۲/جولائی ۲۰۱۴/) کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال ٹی بی سے ساڑھے پانچ لاکھ ہندوستانی ہلاک ہوجاتے ہیں، پوری دنیا میں ملیریا سے ہونے والی اموات میں آدھی تعداد ہندوستان، نائیجریا اور جمہوریہ کانگو سے ہوتی ہے۔ سال ۲۰۱۳/ میں ملیریا سے بھارت میں ایک لاکھ بیس ہزار اموات ہوتی ہیں۔

ملک کی ستر فیصد آبادی آج بھی دیہاتوں میں رہتی ہے، ابھی جولائی میں جاری ہونے والی سماجی معاشی درجات پر مبنی مردم شماری رپورٹ ۲۰۱۱/ کے مطابق چھتیس فیصد آبادی ناخواندہ ہے، ۶۴ فیصد خواندہ آبادی کا پانچواں حصہ پرائمری تعلیم مکمل نہیں کرپاتاہے، سماجی صورت حال یہ ہے کہ یہاں آئے دن کبھی دلتوں کو زندہ جلادیا جاتاہے، تو کبھی اقلیتوں کو خاک وخون کے دریا میں غرق کردیا جاتا ہے، رہی ان کے خلاف زہر افشانی اور ان کی انتہائی دل آزاری تو یہ خاص حکومت کے نمائندوں کا سب سے دل پسند مشغلہ ہے اور حکومت اس سے مزے لے رہی ہے، خواتین عدمِ تحفظ کا شکار ہیں، میڈیا سے استفادہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے دیش میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جس میں ماں، بہن، بہو، بیٹی درندگی کا شکار نہ ہوتی ہوں، اسی مذکورہ ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ (۲۸/جولائی ۲۰۱۴/) کے مطابق بھارت میں ہر آدھے گھنٹے میں عصمت دری کا ایک شرمناک واقعہ درج کیا جاتاہے۔

عدالتی نظام کی صورت حال یہ ہے کہ آج ملک کی جیلوں میں پونے تین لاکھ صرف ملزم ہیں، مجرم نہیں، اوراس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر قیدی خود پر لگے الزام میں متعین زیادہ سے زیادہ سزا کی مدت سے بھی زیادہ عرصہ جیل میں گزارچکے ہیں، آزادی کے بعد سب سے زیادہ مشکلات کی شکار یہاں کی اقلیتیں ہیں، تعصب، فرقہ پرستی، مسلم کشی نے مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی ترقی کو الٹی سَمت میں ڈال دیا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کے ساتھ قانون سازی کی سطح پر بھی دانستہ نا انصافیاں کی گئی ہیں، آئینِ ہند میں فراہم ریزرویشن کی سہولت سے ہندو دلتوں کے ہم پیشہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ ۱۹۵۰/ سے محروم رکھا گیا ہے۔

آزادی کے بعد آزاد بھارت میں پے درپے مسلم کُش فسادات نے ان کی معیشت کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور اس بارے میں ان کے ساتھ کبھی بھی انصاف نہیں کیاگیا، متعدد انکوائری کمیشنوں نے ان فسادوں میں سیکورٹی ایجنسیوں وغیرہ کی مجرمانہ حرکتوں کا انکشاف کیا؛ مگر اس سلسلہ میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی، پولیس کی متعصبانہ کارروائیوں کی بدولت ہزاروں بے گناہ مسلم نوجوان پسِ دیوارِ زنداں مقدمات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں؛ مگرقانون وانصاف نے ان کی طرف سے نظریں پھیر رکھی ہیں، آخر یہ کیسی ستم ظریفی ہے ، ملک کے جن وفاداروں نے آزادیِ وطن کے لیے اپنی جانوں تک کی قربانی پیش کرنے میں ادنیٰ پس وپیش اور تذبذب کو دخل نہیں دیا، آج ان سے حب الوطنی اور ملک کے ساتھ وفاداری کا ثبوت طلب کیا جارہا ہے اور اسی مزعومہ وفاداری کے لیے وندے ماترم، یوگا،اور گیتا پڑھنے کو معیار بنایا جارہا ہے۔ اور یہ مطالبہ ایسی جماعت کی جانب سے کیا جارہا ہے،جس نے جنگِ آزادی کے وقت مجاہدینِ حریت کے خلاف جاسوسی جیسی ضمیرفروشی کی خدمت انجام دی ہے۔

آزادیِ ملک پر ۶۸ سال بیت جانے کے بعد بھی ملک کے عوام مذکورہ بالا مسائل میں گرفتار ہیں؛ تو کیا آزادی کا صحیح مفہوم یہی ہے، مجاہدینِ آزادی کا کیا یہی نظریہ تھا، آزاد بھارت کا آئین کیا یہی رہنمائی کررہا ہے؟ واقعات ومشاہدات صاف بتارہے ہیں کہ آج ملک کی سیاست اگرچہ آزاد ہے؛ مگر سماج غلامی کے بندھن میں اب بھی گرفتار ہے۔ اصل آزادی اسی وقت میسر آئے گی جب ہمارا سماج غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوجائے گا؛ اس لیے ملک کے بہی خواہوں اور سچے وفاداروں کو اس اصلی آزادی کے لیے میدانِ جہدوعمل میں آنے کی ضرورت ہے۔

فضا   مسر   تِ   صبحِ     بہا    ر  تھی   لیکن

پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی

$ $ $

 

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9 ، جلد: 99 ‏، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق  ستمبر 2015ء